Home Blog

12 Rabi ul Awal Quotes in Urdu

1

12 Rabi ul Awal Quotes in Urdu

تمام اہل اسلام کو ربیع الاول کا چاند مبارک ۔۔۔
وہ عرش کا چراغ ہیں میں ان کے قدموں کی دھول ہوں ؛
….اے زندگی گواہ رہنا میں بھی غلام رسول ہوں

 

Rabi’ Al-Awwal: A Blessed Month in the Islamic Calendar

Rabi’ Al-Awwal, the third month of the Islamic calendar, holds immense significance for Muslims worldwide. This blessed month (12 Rabiul Awal) marks the birth of the Prophet Muhammad (peace be upon him), the messenger of Allah who would change the course of humanity forever. Born an orphan in Makkah in 570 CE, the Prophet’s life serves as a shining example for believers. His orphanhood highlights the importance of caring for those in need, as emphasized in a Hadith where he says, “I and the one who cares for an orphan will be together in Paradise.”

The Prophet’s birth is described by Allah as a mercy to all people, as stated in the Quran, “It was only as a mercy that We sent you (Prophet) to all people.” (Quran, 21:107) While the exact date of his birth remains a topic of discussion among scholars, many believe it to be the 12th day of Rabi’ Al-Awwal. Interestingly, the Prophet recommended fasting on Mondays, the day he was born and received revelation, as narrated in a Hadith.

Rabi’ Al-Awwal serves as an opportunity for Muslims to reflect on the Prophet’s teachings, life, and legacy. Unlike other sacred months, such as Dhul Hijjah and Ramadan, there are no specific or required acts of worship during Rabi’ Al-Awwal. Instead, Muslims are encouraged to embody the Prophet’s values, such as compassion, kindness, and justice. This month also marks the passing away of the Prophet Muhammad, making it a time for mourning and remembrance.

In conclusion, Rabi’ Al-Awwal is a significant month for Muslims to reconnect with the Prophet’s teachings and celebrate his life and legacy. By embracing his values and following his Sunnah, believers can cultivate a deeper understanding of their faith and foster a stronger connection with the Prophet and Allah.

Rabi ul Awal Poetry, 12 Rabi ul Awal Shayari & Status

12 Rabi ul Awal Poetry is the best way to express your words and emotions. Check out the amazing collection of words for expressing your feelings. This section is based on a huge data of all the latest Rabi ul Awal Shayari, status & quotes that can be dedicated to your family, friends and loved ones. Convey the inner feelings of the heart with this world’s largest Eid Milad un Nabi Poetry in Urdu compilation that allows an individual to show sentiments through words.

 

جن کے آنے سے روشن ہوئے دو جہاں
ان کے قدموں کی برکت پہ لاکھوں سلام

 

فضا کی خوشبو بتا رہی ہے
میرے آقا کی ولادت آرہی ہے

 

ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد
ذات نبی بلند ہے ذات خدا کے بعد

 

شرف مجھ کو بھی عطا ہو ان کی زیارت کا
فرشتے اتے ہیں جن کی چوکھٹ کو چومنے

جس خواب میں ہو جائے دیدار نبیﷺ حاصل
اے عشق ہم فقیروں کو بھی وہ نیند سلا دے

Eid Milad-Un-Nabi Text Quotes

نبی کی شانِ معتبر،بیان کب کسی سی ہوئی ہے
وہ ذاتِ اکبر ہے جو شعور سے بالا تر ہوئی ہے..

نبیﷺ کی یاد ِ مسلسل ہواور جانکنی کا وقت ہو
رشک کرے گی زندگی بھی گر ایسی موت آ جاے..

کیسے ہو بیاں اس زباں سے شان نبیﷺ
وہ ہیں سید انبیاء اور میں غلام نبی..

نبی ﷺ کی ذات پر ہر پل درودوں کی سلامی دے
ملے گا حشر میں تجھ کو کوئی پھر مرتبہ لازم..

اٹھا دو یہ پردہ دیکھا دو نا منظر
کہ پھر چاند کو بھی پتا یہ چلے کے..

حضور ﷺ کے جو غلاموں میں نام آ جائے
مرا بھی عشقِ نبی میں مقام آ جائے ..

میرے سرکار صہ کا جو گدا ہو گیا
مہرباں اس پہ میرا خدا ہو گیا..

در نبی کی شانِ معتبر،بیان کب کسی سی ہوئی ہے
وہ ذاتِ اکبر ہے جو شعور سے بالا تر ہوئی ہے..

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے

نبیﷺ کی یاد ِ مسلسل ہواور جانکنی کا وقت ہو
رشک کرے گی زندگی بھی گر ایسی موت آ جاے..

کیسے ہو بیاں اس زباں سے شان نبیﷺ
وہ ہیں سید انبیاء اور میں غلام نبی..

نبی ﷺ کی ذات پر ہر پل درودوں کی سلامی دے
ملے گا حشر میں تجھ کو کوئی پھر مرتبہ لازم..

اٹھا دو یہ پردہ دیکھا دو نا منظر
کہ پھر چاند کو بھی پتا یہ چلے کے..

حضور ﷺ کے جو غلاموں میں نام آ جائے
مرا بھی عشقِ نبی میں مقام آ جائے ..

میرے سرکار صہ کا جو گدا ہو گیا
مہرباں اس پہ میرا خدا ہو گیا..

نبی ﷺکا عشق و خیال دیدے
کوئی رضا کی مثال دیدے..

نبی کا عشق و خیال دیدے
کوئی رضا کی مثال دیدے..

عرش کا چراغ ہیں میں ان کے قدموں کی دھول ہوں

اے زندگی گواہ رہنا میں بھی غلام رسول ﷺ ہوں

نظر کرم یا نبی جی عطا کیجئے
میرے درد کی اب دوا کیجئے

نبی ﷺکا عشق و خیال دیدے
کوئی رضا کی مثال دیدے..

نبی کا عشق و خیال دیدے
کوئی رضا کی مثال دیدے..

عرش کا چراغ ہیں میں ان کے قدموں کی دھول ہوں

اے زندگی گواہ رہنا میں بھی غلام رسول ﷺ ہوں

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند

اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

جن کو مل گئی ہے میرے حضورﷺ کی

وہ خاک ہر گلی کی کبھی چھانتے نہیں

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرےہیں

جس خواب میں ہو جائے دیدار نبیﷺ حاصل
اے عشق ہم فقیروں کو بھی وہ نیند سلا دے

خالق نے اپنے نور کا جلوہ دکھا دیا
سب نور کو ملا کے محمد ﷺکوبنا دیا

میٹھا میٹھا ہے میرے محمد ﷺکانام
ان پہ لاکھوں کروڑوں درود و سلام

بتاتا ہے خود یہ خدائے محمد ﷺ
بنی ہے یہ دنیا برائے محمد ﷺ

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں

جن کے آنے سے روشن ہوئے دو جہاں
ان کے قدموں کی برکت پہ لاکھوں سلام

مانا کہ نیکیوں میں میرا شمار نہیں
بس اتنا جانتا ہوں محمدﷺ کاامتی ہوں کوئی عام نہیں

روک لیتی ہے اپ کی نسبت پیر جتنے بھی ہم پر چلتے ہیں
یہ کرم ہے حضور ﷺ کا ہم پر کہ آنے والے عذاب ٹلتے ہیں

khufia jazeera or posheeda ghaar

0

خفیہ جزیرہ اور پوشیدہ غار

URDU MORAL STORIES

Urdu stories for kids are a treasure trove of moral values, cultural heritage, and linguistic richness. These stories have been passed down through generations, captivating young minds and imparting valuable life lessons.

Urdu moral stories for kids often feature relatable characters, engaging plots, and simple language, making them accessible to children of all ages. These stories teach essential values like honesty, kindness, and respect, helping kids develop a strong moral compass.

Some popular Urdu stories for kids include:

1. “Akbar Birbal” – tales of the wise advisor Birbal and his clever solutions to complex problems.
2. “Mullah Nasruddin” – humorous stories of a wise fool, teaching kids about wit and wisdom.
3. “Alif Laila” – Urdu translations of the Arabian Nights, full of adventure, magic, and moral lessons.
4. “Panchtantra” – ancient fables teaching kids about friendship, teamwork, and cleverness.

These stories not only entertain but also educate kids about Urdu language, culture, and traditions. They help children develop critical thinking, creativity, and emotional intelligence.

In today’s digital age, Urdu stories for kids are more relevant than ever, offering a refreshing alternative to screen time. So, let’s revive the tradition of storytelling and share these precious tales with our children, nurturing their young minds and hearts.

خفیہ جزیرہ اور پوشیدہ غار

ایک زمانے میں ، ایک پراسرار جزیرہ تھا جو عام ملاحوں کی پہنچ سے بہت دور تھا۔ اسے ** شیڈو آئل ** کہا جاتا تھا ، اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ آفت زدہ ہے۔ اس کے قریب جانے والے چند افراد کبھی واپس نہیں آئے۔ دانشمند انسانوں کا کہنا تھا کہ اس جزیرے میں بہت سی چیزیں پوشیدہ ہیں جیسے کہ عجیب و غریب مخلوق ، پوشیدہ خطرات ، اور ایک قدیم راز جو جزیرے کے گہرے اور پتھریلے دل میں دفن کیا گیا ہے ۔

ایک پرسکون سمندر کے کنارے گاؤں میں ، تین بہادر بہن بھائی – ** جیک ** ، ** ایملی ** ، اور ** اولیویا ** – شیڈو آئل کے بارے میں کہانیاں سن کر بڑے ہوئے تھے ۔ وہ متجسس اور بہادر تھے ، اور کسی جزیرے کے خیال سے کسی نے بھی جانے کی ہمت نہیں کی۔

ایک طوفانی رات ، جب وہ ساحل سے کھیل رہے تھے ، کچھ ناقابل یقین واقعہ ہوا: ایک ** بوتل ** ساحل سمندر پر نظر آئ ، جس کے اندر شیڈو آئل کا ** نقشہ ** تھا۔

بہن بھائی ان کی قسمت پر یقین نہیں کرسکتے تھے۔ نقشہ میں ** پوشیدہ غاروں ** ، عجیب علامتوں ، اور ایک ایسا راستہ دکھایا گیا جس کا لیبل لگا ہوا تھا “** کھوئے ہوئےچیمبر آف سیکریٹ **۔”

اگلی صبح ، بہن بھائیوں نے فیصلہ کیا – وہ آئل کو سر کرنے اور اپنے اسرار کو واضح کرنے کے لئے روانہ ہوجائیں گے۔ نقشہ سے لیس ، انہوں نے اپنے چچا کی پرانی کشتی ادھار لی اور ڈان کے سرورق کے نیچے سفر کیا۔ سفر مشکل لہروں اور تیز ہواؤں کے ساتھ مشکل تھا ، لیکن ان کے عزم نے انہیں جاری رکھا۔

گھنٹوں جہاز رانی کے بعد ، یہ جزیرہ افق پر نمودار ہوا ، جو سیاہ بادلوں میں ڈھکا ہوا تھا۔ جب وہ ساحل کے قریب آئے تو ، انہوں نے کچھ عجیب و غریب چیز دیکھی: جزیرے کے آس پاس کا پانی بالکل صاف اور ٹھہرا ہوا تھا ، گویا یہ جزیرہ خود انہیں دیکھ رہا تھا۔

“کیا آپ کو لگتا ہے کہ لیجنڈز کے سچ ہیں؟” اولیویا نے گھبرا کر پوچھا۔

جیک نے کشتی کو ساحل کی طرف کرتے ہوئے کہا ، “ہم تلاش کرنے والے ہیں۔”

جب انہوں نے جزیرے پر قدم رکھا تو ، ایک گہری دھند چھائی ، جس میں ہر چیز کو ایک موٹی دوبد میں ڈھانپ دیا گیا۔ بہن بھائی نقشے کے پیچھے چل پڑے ، جس کی وجہ سے وہ گھنے جنگل کے داخلی راستے تک پہنچ گئے۔ اچانک ، ایک اونچی آواز میں ** گرج ** درختوں کے ذریعے گونج اٹھا ، اور سائے سے ایک ** بڑے پیمانے پر مشتمل جانور ** سامنے آیا-چمکتی ہوئی سبز آنکھوں والا شیر نما جانور۔

“میں آئل کا ** سرپرست ہوں ** ،” اس نے ان کا راستہ روک دیا۔ “کوئی بھی اس وقت تک نہیں گزر سکتا جب تک کہ وہ اپنی ہمت ثابت نہ کریں۔”

بہن بھائی خوفزدہ ہوگئے ، لیکن جیک بہادری سے آگے بڑھا۔ “ہم خوفزدہ نہیں ہیں۔ ہم اس جزیرے کی حقیقت کو دریافت کرنے آئے ہیں۔

گارڈین نے اس کی آنکھیں تنگ کیں ، پھر آہستہ آہستہ ایک طرف قدم بڑھا۔ “جزیرہ آپ کی طاقت کی جانچ کرے گا۔ تیار رہو۔ “

ان کے دلوں کی دوڑ کے ساتھ ، بہن بھائیوں نے جنگل میں گہری گہرائی کا رخ کیا ، یہ جانتے ہوئے کہ اصل چیلنجز ابھی شروع ہو رہے ہیں۔

نقشہ کے بعد ، وہ ایک تاریک ** غار ** پر پہنچے۔ عجیب علامتیں دیواروں میں کھدی ہوئی تھیں ، اور جب وہ اندر قدم رکھتے تھے تو انہوں نے آوازیں سنی – سافٹ سرگوشی ، گویا غار خود زندہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرگوشیوں نے انہیں گھومتے ہوئے سرنگوں کی طرف گہرائی میں آگے بڑھایا ہے۔

اچانک ، ان کے نیچے کی زمین لرز اٹھی ، اور غار کا داخلی دروازہ گر گیا۔ وہ پھنس گئے تھے۔

وہ شدید گھبرا گئے ، لیکن ان تینوں میں سے پرسکون ، ایملی نے کچھ عجیب و غریب دیکھا۔ “دیکھو!” اس نے دیواروں پر چمکتی علامتوں کی ایک سیریز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ “مجھے لگتا ہے کہ وہ ہمیں کچھ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

علامتیں روشنی کے ساتھ راستہ لگ رہی تھیں ، جس سے ایک راستہ بنتا ہے۔ جب انہوں نے اس کی پیروی کی ، وسوسے زور سے بڑھتے گئے ، الفاظ تشکیل دیتے ہوئے: “** روشنی پر بھروسہ کریں ، اور اندھیرے کا راستہ ظاہر ہوجائے گا۔ **”

لیکن جتنا وہ چلے گئے ، یہ گہرا ہو گیا۔ جلد ہی ، وہ بمشکل ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ اولیویا ، اندھیرے سے خوفزدہ ، اس کے بہن بھائیوں سے لپٹ گی۔ “اگر ہم کسی جال میں پھنس رہے ہیں تو کیا ہوگا؟”

جس طرح خوف نے ان پر مغلوب ہونا شروع ہوا ، اسی طرح آگے ایک چمک نمودار ہوئی۔ وہ جلدی سے اس کی طرف بڑھے اور اپنے آپ کو ایک بڑے ** چیمبر ** میں پایا ، جو قدیم ڈرائنگز اور کمرے کے بیچ میں ایک عجیب ** کرسٹل ** سے بھرا ہوا تھا۔ نقشہ میں انہیں جزیرے کے دل کی طرح دکھائی دیا تھا۔

لیکن کچھ ٹھیک محسوس نہیں ہوا۔

جب انہوں نے ڈرائنگ کا جائزہ لیا تو ، انہیں احساس ہوا کہ وہ صرف بے ترتیب علامت نہیں تھے – وہ انتباہ تھے۔ اس جزیرے میں ایک بار ایک طاقتور تہذیب کا گھر گروہ رہا تھا جس نے جزیرے کے اندر ایک خطرناک ** راز ** چھپا لیا تھا۔ کھوئے ہوئے چیمبر آف سیکریٹ کو خزانہ سے نہیں بھرا گیا تھا – اس میں اس سے کہیں زیادہ خطرناک چیز تھی: ایک ** جادوئی نمونہ ** اگر یہ غلط ہاتھوں میں پڑ گیا تو دنیا کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اچانک ، دیواریں لرزنے لگیں ، اور ان کے نیچے کی زمین وسیع ہوئی۔ چیمبر کے مرکز میں موجود کرسٹل نے روشن چمکنا شروع کیا ، کمرے میں روشنی کی لہریں آنا شروع ہوئی ۔

“ہمیں اب رخصت ہونے کی ضرورت ہے!” جیک چیخا ، لیکن باہر جانے کا واحد راستہ مسدود ہوگیا۔

جب وہ فرار تلاش کرنے کے لئے گھس گئے تو ، غار سے آوازیں گونجنے لگی ، اس بار زور سے۔ “** آپ نے جزیرے کے دل کو پریشان کردیا ہے۔ اپنی دانشمندی ثابت کریں ، یا ہمیشہ کے لئے کھوئے رہیں۔ ** ”

بہن بھائیوں نے محسوس کیا کہ یہ صرف ایک جسمانی چیلنج نہیں تھا بلکہ یہ ان کے ذہنوں اور ان کے اتحاد کا امتحان تھا۔ وہ چمکتے ہوئے کرسٹل کے گرد جمع ہوئے، یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ کیا کرنا ہے۔ نقشہ انہیں یہاں لے گیا تھا، لیکن اس نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ کیسے زندہ رہنا ہے۔

“ہمیں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا ہوگا،” ایملی نے کہا۔ “جزیرہ ہمارا امتحان لے رہا ہے۔ اگر ہم ساتھ رہیں تو ہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ایک گہرا سانس لے کر، تینوں نےآنکھیں بند کر کے کرسٹل پر ہاتھ رکھا۔ جیسے ہی انہوں نے رکھا ، زمین ہلنا بند ہو گئی، اور آوازیں خاموش ہو گئیں۔ آہستہ آہستہ، کرسٹل مدھم ہوا، اور چیمبر میں ایک پوشیدہ *دروازہ* کھل گیا، جس سے سطح پر واپس جانے کا راستہ ظاہر ہوا۔

جیسے ہی وہ غار سے نکلے، دھند ہٹ گئی، اور جزیرہ ایک بار پھر پرامن دکھائی دیا۔ گارڈین دوبارہ نمودار ہوا، ایک پہاڑ پر کھڑا ہوا جو سمندر کو دیکھ رہا تھا۔ “آپ نے اپنی قابلیت ثابت کر دی ہے،” اس نے کہا۔ “جزیرے نے آپ کو جانے کی اجازت دی ہے کیونکہ آپ نے اس کی طاقت کو لالچ کے لئے نہیں بلکہ سمجھنے کے لئے تلاش کیا تھا۔ جزیرے کے راز کو دوبارہ کبھی پریشان نہیں ہونا چاہئے۔”

اپنی مہم جوئی کی کشش کو سمجھتے ہوئے، بہن بھائیوں نے جزیرے کے راز کو محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا۔ وہ اپنے گھر واپس روانہ ہوئے، یہ جانتے ہوئے کہ انہوں نے خزانے سے کہیں زیادہ بڑے اسرار سے پردہ اٹھایا ہے — ایک ایسا راز جو خود غرضانہ ارادوں کے ساتھ تلاش کرنے والے کے لیے حل طلب ہی رہے گا۔

اور اس طرح، *شیڈو آئل* کا افسانہ زندہ رہا، ہواؤں اور لہروں میں سرگوشی کرتا، اگلی بہادر روحوں کے اس کی گہرائیوں میں قدم رکھنے کا انتظار کرتا رہا۔

 

 

 

Jadooi Jungle | جادوئی جنگل اور کھویا ہوا خزانہ

0

جادوئی جنگل اور کھویا ہوا خزانہ

 

 A Tale of Hidden Treasure

Deep within the heart of the enchanted forest, where ancient trees stretch towards the sky and leaves rustle with secrets, lies a legend of a hidden treasure. For centuries, brave adventurers and curious souls have ventured into the woods, seeking to uncover the truth behind the whispers of a forgotten riches.

The story begins with a mysterious map, etched on a worn parchment, that hints at the treasure’s existence. Many have attempted to decipher the cryptic symbols and markings, but none have succeeded. Some say the map is cursed, leading many astray into the depths of the forest, never to return.

One stormy night, a young explorer named Sophia stumbled upon the map in an old, dusty bookshop. Intrigued, she felt an inexplicable connection to the mysterious chart. With a sense of determination, Sophia set out to unravel the secrets of the map and uncover the treasure.

As she ventured deeper into the forest, the trees seemed to whisper ancient tales, and the wind carried the faint scent of gold. Sophia followed the map, navigating through treacherous paths and hidden clearings. Suddenly, a faint glow emanated from a nearby cave, beckoning her closer.

With a deep breath, Sophia entered the cave, where she discovered a chest overflowing with glittering jewels and gold coins. But, to her surprise, the treasure was not the only secret the cave held. Ancient artifacts and mysterious scrolls revealed a long-forgotten civilization, hidden away for centuries.

Sophia realized that the true treasure was not gold or riches but the secrets and stories of the past, hidden within the whispering woods. As she made her way back, the forest seemed to whisper a new tale, one of discovery and wonder. The legend of the hidden treasure lived on, but now, it was a reminder of the magic that lies just beyond the edge of our everyday world.

 

ایک زمانے میں، ایک جادوئی سلطنت کے دل میں، ایک *جادوئی جنگل* تھا۔ جنگل وسیع اور پراسرار تھا، قدیم درختوں، چمکتی ہوئی ندیوں اور بات کرنے والی مخلوقات سے بھرا ہوا تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جنگل نے ایک *گم شدہ خزانہ* چھپا رکھا ہے، لیکن کسی کو کبھی نہیں ملا۔ دانشوروں کے مطابق، صرف وہی لوگ جو جنگل کے گہرے رازوں کا سامنا کرنے کے لیے کافی بہادر ہیں وہ خزانہ دریافت کر سکتے ہیں۔

جنگل کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں دوستوں کا ایک گروپ رہتا تھا: *ٹام، ایک ہوشیار لڑکا جس کے پاس پہیلیاں حل کرنے کی مہارت تھی۔ **میا، ایک بہادر اور متجسس لڑکی جو مہم جوئی سے محبت کرتی تھی۔ **لیو، ایک مضبوط لیکن نرم لڑکا جو تمام جانداروں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اور **سوفی*، ایک نرم دل لڑکی جو جانوروں سے بات کر سکتی تھی۔ وہ جادوئی جنگل کی کہانیاں سن کر بڑے ہوئے تھے، لیکن چند لوگوں نے اس کی پراسرار گہرائیوں میں داخل ہونے کی ہمت کی۔

ایک دن، جنگل کے کنارے کھیلتے ہوئے، دوست درخت کے نیچے دبے *پرانے نقشے* سے ٹھوکر کھا گئے۔ نقشہ دھندلا ہوا تھا، لیکن وہ پھر بھی کچھ نشانات بنا سکتے تھے۔ نقشے کے بیچ میں ایک علامت تھی — ایک *سنہری چابی* — اور ایک نوٹ جس میں لکھا تھا: “صرف دل کا خالص ہی خزانے کے راز کو کھول سکتا ہے۔”

ان کی دریافت سے پرجوش، دوستوں نے نقشے کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، وہ جانتے تھے کہ جنگل *خطرات* سے بھرا ہوا ہے۔ دانشوروں نے عجیب و غریب مخلوقات، جادو کے جال اور طاقتور جادو کے بارے میں بات کی جو خزانے کی حفاظت کرتے تھے۔ خطرات کے باوجود وہ سچائی سے پردہ اٹھانے کے لیے پرعزم تھے۔

اگلی صبح، ٹام، میا، لیو اور سوفی نے اپنے بیگ پیک کیے اور اپنے سفر پر روانہ ہوئے۔ جنگل میں داخل ہوتے ہی ہوا جادو سے تیز ہوتی گئی۔ ہوا چلتے ہی درخت سرگوشی کر رہے تھے، اور چمکتے پھولوں نے اپنا راستہ روشن کیا۔ سب کچھ پُرامن لگ رہا تھا—یہاں تک کہ وہ *ٹوئسٹڈ اوک* تک پہنچ گئے، جو نقشے پر پہلا تاریخی نشان ہے۔

اچانک درختوں سے آواز گونجی۔ “جنگل میں داخل ہونے کی ہمت کس کی ہے؟”

ان کے اوپر ایک شاخ پر ایک بڑا بولتا ہوا *اُلو* نمودار ہوا۔ “میں *ہوٹ* ہوں، اس جنگل کا محافظ۔ پاس ہونے کے لیے، آپ کو میری پہیلی کا جواب دینا ہوگا۔ ناکام ہو جاؤ اور تم واپس پلٹ جاؤ گے۔‘‘

ٹام آگے بڑھا، پہیلی کو حل کرنے کے لیے تیار۔ اُلّو نے پوچھا، “کس چیز کے پاس کیز (چابیاں) ہیں لیکن دروازے نہیں کھول سکتے؟”

ٹام نے مسکرانے سے پہلے ایک لمحے کے لیے سوچا۔ “ایک پیانو۔”

ہاٹ نے سر ہلایا، متاثر۔ “آپ گزر سکتے ہیں، لیکن ہوشیار رہیں – آپ کا سفر ابھی شروع ہوا ہے۔”

جب وہ جنگل میں گہرائی میں نقشے کی پیروی کر رہے تھے، تو ان کو ایک چمکتی ہوئی *غار* نظر آئی جو مکمل طور پر کرسٹل سے بنی تھی۔ غار ایک عجیب سی روشنی سے چمک رہی تھی، اور اندر انہیں ایک *بڑا کرسٹل دروازہ* ملا جس میں ایک سنہری چابی ہول تھی۔ نقشے کے مطابق، یہ وہ جگہ تھی جہاں خزانہ چھپا ہوا تھا، لیکن انہیں چابی تلاش کرنے کی ضرورت تھی۔

میا نے غار کی دیواروں پر کچھ عجیب دیکھا: *سراگ* بھولی ہوئی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ خوش قسمتی سے، سوفی کی جانوروں کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت کام آئی۔ اس نے قریبی *تتلی* کو بلایا جس کا نام *فلکر* تھا، جو جنگل میں سینکڑوں سالوں سے رہ رہی تھی۔

قدیم زبان پڑھتے ہوئے غار کے اردگرد فلکر پھڑپھڑا رہی تھی ۔ “آپ جس چابی کی تلاش کرتے ہیں وہ سونے کی نہیں بلکہ اعتماد سے بنی ہے۔ صرف وہی لوگ مل سکتے ہیں جو مل کر کام کرتے ہیں۔

الجھن میں لیکن پرعزم، دوستوں نے محسوس کیا کہ ان میں سے ہر ایک کو اسرار کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ وہ غار کے اندر مزید سراغ تلاش کرنے کے لیے الگ ہوگئے۔

تلاش کے دوران، لیو نے کرسٹل دروازے کے قریب زمین پر ایک دھندلا نمونہ دیکھا۔ “یہ ایک *پهندا جال* کی طرح لگتا ہے،” اس نے خبردار کیا، اور احتیاط سے اس پر قدم رکھا۔ اسی وقت، زمین ہل گئی، اور فرش سے ایک جال اُٹھا، لیو کو پھنسا کر چھت کی طرف گھسیٹتا چلا گیا!

گھبرا کر، ٹام چلایا، “ہمیں اسے نیچے اتارنے کی ضرورت ہے!” لیکن کیسے؟

میا نے دیوار کے ساتھ *لیور* کا ایک سیٹ دیکھا۔ “شاید ان میں سے کوئی اسے رہا کر دے۔” لیکن کون سا؟

وقت ختم ہو رہا تھا۔ سوفی نے فلکر تتلي کو بلایا، جس نے اس کے کان میں سرگوشی کی: “جواب ہم آہنگی میں ہے۔”

“مجھے لگتا ہے کہ ہمیں انہیں ایک ساتھ کھینچنے کی ضرورت ہے،” سوفی نے کہا۔ “تین پر!”

ایک تیز سر ہلا کر، ٹام، میا، اور سوفی نے یک زبان ہو کر لیورز کو کھینچ لیا۔ جال غیر فعال ہو گیا، اور لیو کو محفوظ طریقے سے زمین پر اتار دیا گیا۔ “شکریہ، سب کا ،” اس نے اطمینان سے کہا۔ “یہ قریب تھا۔”

جیسا کہ مشن جاری رہا، انہیں مزید *چیلنجوں* کا سامنا کرنا پڑا—پراسرار علامتیں، جادوئی ندیاں، اور ایسی مخلوق جنہوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ایک ساتھ، انہوں نے ہر ایک پہیلی کو حل کیا، دوست کے طور پر قریب ہوتے گئے۔ راستے میں، انہوں نے کچھ عجیب دریافت کیا: ایسا لگتا تھا جیسے جنگل ان کی *آزمائش* کر رہا ہے، نہ صرف خزانے کی حفاظت کر رہا ہے۔

ایک رات، ایک دریا کے کنارے ڈیرے ڈالتے ہوئے، دوستوں کو ایک *بوڑھی عورت* ملنے گئی۔ اس نے انہیں خبردار کیا، “سارا خزانہ سونا اور جواہرات نہیں ہے۔ اصل اجر سفر میں ہے۔”

اس کی باتوں سے الجھ کر، گروپ نے اگلی صبح خزانہ تک پہنچنے کے لیے بے چین ہو کر دباؤ ڈالا۔ لیکن وہ اس احساس کو متزلزل نہ کر سکے کہ بوڑھی عورت کا انتباہ اہم تھا۔

آخر کار ، یہ گروپ ** جنگل کے دل ** پر پہنچا ، جو نقشے پر نشان لگا ہوا آخری منزل ہے۔ ان کے سامنے ایک ** بڑے پیمانے پر سنہری درخت ** تھا ، اس کی شاخیں جادو سے چمکتی ہیں۔ درخت کی بنیاد پر سنہری سینہ تھا ، لیکن اس میں کوئی تالا نہیں تھا – صرف سنہری کلید کی علامت۔

میا نے آگے بڑھتے ہوئے کہا ، “یہ ہونا ضروری ہے۔” لیکن جب وہ سینے کے لئے پہنچی تو ، زمین رمزن ہونے لگی ، اور درختوں کے ذریعہ ایک آواز گونج اٹھی: “صرف دل کا خالص ہی خزانہ کا دعوی کرسکتا ہے۔”

اچانک ، ان کے آس پاس کا جنگل زندگی میں آگیا۔ داھلیاں اپنے پیروں کے گرد لپیٹ گئیں ، اور ایک روشن روشنی نے انہیں گھیر لیا۔ اس لمحے میں ، دوستوں کو احساس ہوا کہ بوڑھی عورت کا کیا مطلب ہے۔ خزانہ دولت کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ ان کی ** دوستی ** ، اعتماد اور بہادری کے بارے میں تھا۔

ٹام نے کہا ، “ہم نے مل کر کام کیا ، ایک دوسرے پر بھروسہ کیا ، اور بطور ٹیم ہر چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔” “یہ کلید ہے۔”

ان الفاظ کے ساتھ ، داھلیاں پیچھے ہٹ گئیں ، اور سینہ خود ہی کھل گیا۔ اندر ، انہیں ایک واحد ** سنہری پتی ** اور ایک نوٹ ملا جس میں لکھا گیا ہے: “سب کا سب سے بڑا خزانہ وہ بانڈ ہے جو آپ بانٹتے ہیں۔”

اگرچہ انہیں سونے یا زیورات کے ڈھیر نہیں ملے ، دوست خزانے کے حقیقی معنی کو سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے سفر کے دوران مضبوط ، بہادر اور زیادہ متحد ہوگئے تھے۔ سنہری پتی ان کی دوستی کی علامت تھی ، اور وہ جانتے تھے کہ چاہے کچھ بھی نہ ہو ، جب تک کہ وہ ایک دوسرے کے پاس ہوں تو انہیں کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جب وہ جنگل سے نکلے تو بوڑھی عورت ایک بار پھر مسکراتے ہوئے نمودار ہوئی۔ “آپ نے جنگل کا امتحان پاس کیا ہے۔ یاد رکھنا ، سب سے بڑا خزانہ ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو آپ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔

اور اسی طرح ، دوست دولت کے ساتھ نہیں ، بلکہ دوستی کے جادو کی گہری تفہیم کے ساتھ اپنے گاؤں واپس آئے۔ اور ہر رات ، وہ سنہری پتے کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتے ، انہیں جادو کی مہم جوئی کی یاد دلاتے تھے جس نے انہیں پہلے سے کہیں زیادہ قریب کر دیا تھا۔

For more amazing stories CLICK HERE

The story of Seven Fairies

0
image of fairies

The Enchanting World of Seven Fairies

Fairy tales have been an integral part of human culture for centuries, captivating the imaginations of both young and old alike. Among the myriad of stories that have enchanted us, the tale of the “Seven Fairies” stands out as a timeless classic, weaving together themes of magic, adventure, and the triumph of good over evil. This article delves into the mystical world of the seven fairies, exploring their origins, their significance in folklore, and the enduring appeal of their story.

The Story of the Seven Fairies

The tale of the seven fairies has been told and retold in various forms, with each version adding its own unique twist to the narrative. One of the most popular versions of the story begins with the seven fairies living peacefully in their enchanted forest, each fairy governing a different aspect of the natural world. Their harmony is disrupted when a dark sorcerer or wicked witch, jealous of their power, seeks to capture them and use their magic for evil purposes.

In this version of the story, the fairies must go on a perilous journey to escape the clutches of the sorcerer and protect their magical world. Along the way, they encounter various challenges and enemies, but they also find allies in unexpected places. Through their courage, wisdom, and cooperation, the fairies are able to outwit their foes and ultimately restore peace to their realm.

 The Role of Fairies in Folklore

Fairies have played a significant role in folklore, symbolizing the mysterious and magical aspects of the natural world. They are often seen as intermediaries between the human world and the supernatural realm, possessing knowledge and powers beyond the comprehension of ordinary mortals. In many stories, fairies are guardians of nature, protecting it from harm and ensuring that the balance between humans and the environment is maintained.

The seven fairies, in particular, are often depicted as a group of sisters or companions, each with their own unique abilities and personalities. These fairies are typically associated with different elements of nature, such as air, water, earth, and fire, and their powers are tied to these elements. For example, one fairy might have the ability to control the winds, while another can summon rain or make flowers bloom.

In some versions of the tale, the seven fairies are seen as protectors of a magical realm, tasked with guarding a powerful artifact or maintaining the balance between good and evil. Their story often involves a quest or adventure, where they must work together to overcome obstacles and defeat a malevolent force that threatens their world.

Another common version of the story involves the seven fairies aiding a human protagonist, often a young prince or princess, who is on a quest to save their kingdom or break a curse. The fairies provide guidance and magical assistance, helping the protagonist overcome seemingly insurmountable odds. In the end, the fairies’ involvement is crucial to the success of the hero’s mission, and they are celebrated as the true heroes of the tale.

The Modern Interpretation of Fairy Tale

In some modern retellings, the seven fairies are portrayed as strong, independent heroines who take charge of their destiny rather than relying on a male hero to save the day. These versions of the story often emphasize themes of female empowerment and self-reliance, reflecting the changing cultural attitudes towards gender roles and expectations.

Additionally, modern adaptations of the seven fairies’ story may explore darker or more complex themes, such as the consequences of using magic for selfish purposes or the struggles of living in a world that does not always appreciate or understand the value of nature. These interpretations add a new dimension to the tale, making it relevant to contemporary audiences while preserving the essence of the original story.

Conclusion

The tale of the seven fairies is a testament to the enduring power of fairy tales to captivate and inspire. With its rich history, timeless themes, and magical elements, the story continues to enchant audiences around the world. Whether told as a traditional folk tale or reimagined for modern times, the story of the seven fairies reminds us of the magic that exists within us all and the importance of protecting the natural world that sustains us.

For those who seek to escape into a world of wonder and imagination, the story of the seven fairies offers a timeless journey into the heart of magic and adventure. Its enduring appeal ensures that it will continue to be told and retold for generations to come, each version adding its own unique charm to the tale

 

سات پریوں کی کہانی

کسی گاؤں میں ایک غریب کسان رہتا تھا . غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر ایک روز اس نے شہر جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس کی بیوی نے اسے سات روٹیاں پکا کر دیں جنھیں اس نے ایک دستر خوان میں باندھا اور شہر چل پڑا ۔ کئی گھنٹے مسلسل چلتے رہنے کی وجہ سے وہ تھک گیا تھا اس لیے وہ ایک اندھے کنوئیں کے پاس پہنچ کر آرام کرنے کے لیے رک گیا۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اسے بھوک ستانے لگی تو اس نے اپنا دسترخوان نکال کر سامنے رکھ لیا اور اپنے آپ سے کہنے لگا۔ ” ایک کھاؤں دو کھاؤں تین کھاؤں یا ساتوں کی سات ک جاؤں…. جس اندھے کنوئیں کے قریب وہ بیٹھا ہوا تھا اس کنوئیں میں سات پریاں رہتی تھیں۔ انھوں نے جب کسان کی باتیں سنیں تو سمجھیں کہ وہ ان سے مخاطب ہے۔ ایک پری بولی یہ تو کوئی عجیب مخلوق ہے جو پریاں کھاتی ہے۔ دوسری نے کہا: اب اس سے جان کیسے چھڑائیں ؟… آپس میں گفتگو کرنے کے بعد وہ سب اس نتیجے پر پہنچیں کہ سب سے بڑی پری اوپر جائے اور اسے کہے کہ اسے جو لینا ہے وہ لے اور ہماری جان چھوڑے

سب سے بڑی پری اوپر آ گئی اور کسان سے کہنے لگی : تم ہم سے جو بھی مانگو گے ہم تمھیں دیں گے مگر خدا کے لیے ہمیں کھانا مت پری کو دیکھ کر پہلے تو کسان در گیا تھا مگر جب اس نے پری کی باتیں سنی تو وہ بھی شیر بن گیا اور اسے کہنے لگا

تمھیں میں صرف اس شرط پر چھوڑ سکتا ہوں کہ تم مجھے سونے کا انڈا دینے والی مرغی لا دو پری اسے فوراً سونے کا انڈہ دینے والی مرغی لا دیتی ہے اور کہتی ہے : تم مرغی کو اپنے سامنے رکھ کر کہنا، چل مرغی اپنا کارنامہ دکھا تو یہ اپنا کارنامہ دکھا دے گی۔ کسان مرغی لے کر خوشی خوشی واپس اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں سے چونکہ بہت دور ا چکا تھا اسی لیے راستے میں رات ہو گئی اور اس نے سوچا کہ کہیں کوئی اس سے مرغی ہی نہ چھین لے اس لیے اس نے قریبی گاؤں میں پہنچ کر ایک مکان کا دروازہ جا کھٹکھٹایا اس مکان میں ایک بڑھیا رہتی تھی
جب کسان نے اس سے گھر رہنے کی اجازت مانگی تو بڑھیا نے اسے اپنے گھر میں رکھ لیا رات کا کھانا کھانے کے بعد جب وہ سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹے تو کسان نے بڑھیا کو اپنی مرغی کے کارناموں کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ۔ کسان بڑھیا کو مرغی کا راز بتا کر خود تو سو گیا مگر بڑھیا جاگتی رہی اور جب اسے یقین ہو گیا کہ کسان اب سو چکا ہے تو اس نے سونے کے انڈے دینے والی مرغی چھپا دی اور بالکل ویسے ہی مرغی لا کر اس کی جگہ پر رکھ دی دوسرے روز جب کسان سو کر اٹھا تو اس نے بڑھیا کا شکریہ ادا کیا اور مرغی لے کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا جب وہ گھر پہنچا تو بیوی سے کہنے لگا اج میں ایک بڑا ہی نایاب تحفہ لایا ہوں۔ تو مجھے ابھی وہ نایاب تحفہ دکھا اس کی بیوی نے کہا ۔ کسان اب مرغی کو اپنے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا اور بولا: چل اپنا کارنامہ دکھا !! اب وہاں سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہوتی تو اپنا کارنامہ دکھاتی ۔

جب اس کی مرغی نے سونے کا انڈا نہ دیا تو اس کی بیوی اسے کہنے لگی: تیرا تو بس دماغ خراب ہو گیا ہے، بھلا کبھی مرغی نے بھی سونے کے انڈے دیے ہیں کسان نے اسے یقین دلانے کی بہت کوشش کی مگر اس کی بیوی نہ مانی۔ دوسرے روز کسان پھر اسی کنویں پر جا پہنچا اور کہنے لگا : ایک کھاؤں دو کھاؤں تین کھاؤں یا ساتوں کے ساتھ ہی کھا جاؤں اس کی اواز سن کر پريوں کو بہت غصہ آیا کہ وہ پھر اگیا ہے

سب سے بڑی بہن کنویں سے باہر نکلی اور کسان سے کہنے لگی: اے لالچی انسان !! تجھے ہم نے اس قدر قیمتی تحفہ دیا تھا مگر تمہارے حرص پھر بھی ختم نہیں ہوئی اور تم اج پھر آگئے ہو کسان نے پری کی بات سن کر کہا: تم نے میرے ساتھ فریب کیا ہے مجھے ایک عام سی مرغی دے کر کہا یہ سونے کا انڈا دیتی ہے پری بہت سمجھدار تھی اس نے کسان سے پوچھا کہ وہ راستے میں کسی کے گھر رکا تو نہیں تھا کسان نے اسے بڑھیا کے گھر ٹھہرنے والی بات بتا دی پری نے سوچا کہ ضرور اسی بڑھیا نے سونے کا انڈا دینے والی مرغی چرآئی ہوگی ۔ پری نے سوچا کہ ضرور اسی بڑھیا نے سونے کا انڈا دینے والی مرغی کسان سے چرائی ہوگی پری نے اب کی بار کسان کو چھڑی لا کر دی اور اسے کہا کہ اس چھڑی کو لے کر پھر اسی بڑھیا کے گھر جاؤ اور اس سے اپنی مرغی واپس مانگو اگر بڑھیا مرغی واپس کر دے تو بہت اچھا اور اگر وہ مرغی واپس نہ دے تو تم کہنا چل میرے ڈنڈے اپنا کمال دکھا اور چھڑی اپنا کمال دکھانا شروع کر دے گی جب بڑھیا تمہیں مرغی واپس دینے کے لیے راضی ہو جائے تو کہنا رک جا اب ڈنڈے

کسان چھڑی لے کر پھر اسی بڑھیا کے گھر پہنچ گیا اور اس سے اپنی مرغی کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگا جب بڑھیا نے مرغی کے بارے میں اپنی نا علمی کا اظہار کیا تو کسان نے کہا چل میرے ڈنڈے اپنا کمال دکھا کسان نے یہ بات کہنی ہی تھی کہ ڈنڈا بڑھیا پر برسنا شروع ہو گیا بڑھیا بہت چیخی چلائی مگر کسان بالکل خاموش رہا اور چارپائی پر بیٹھ کر اس کا تماشہ دیکھنے لگا آخر بڑھیا کب تک ڈنڈے کی چوٹیں برداشت کرتی کچھ ہی دیر بعد وہ کسان سے کہنے لگی کہ اپنے ڈنڈے کو روکو تمہاری مرغی میں ابھی واپس دیتی ہوں یہ سن کر کسان نے کہا رک جا اب ڈنڈے!! اور ڈنڈے نے برسنا ختم کر دیا بوڑھیا نے کسان کو اس کی مرغی واپس کر دی اور وہ اسے ساتھ لیے اپنے گھر چلا گیا۔
گھر پہنچ کر جب کسان نے بیوی کو مرغی کے کارنامے دکھائے تو وہ بہت حیران ہوئی دیکھتے ہی دیکھتے کسان بہت امیر بن گیا اور وہ میاں بیوی ہنسی خوشی اسی گاؤں میں زندگی بسر کرنے لگے۔

For more amazing stories CLICK HERE

The witch’s Bargain | چڑیل کا سودا

4

 

The summary of the story “The Witch’s Bargain”

The King of Time condemns a serf to die, until the forlorn servant gets and offer from The Borgnine of Bethlehem: in exchange for his life, answer one single impossible question – what do women want? He has a year to find the answer by serving all, And he goes on a journey seeking it.

He then asked many people all over, but none could tell the perfect answer. He goes to a wise witch in an isolated forest with the year almost up. The witch will tell the servant, in exchange for him marrying her.

The servant accepts, and the witch commands him that she will be a fairy for 12 hours then turns back to the witch at another following twelve o’clock. So she asks the maid when should her mistress be a fairy and so is advised “You must always become a witch at times, just as you choose to become a darling little fairy. A woman having a choice is the answer that pleases the witch, and she tells them to go back to tell King Uther this very answer.

So the servant goes back to the king and informs him with this answer which turns out to be correct. The story highlights the importance of giving women the freedom to make their own decisions and choices, and how this freedom is essential to their happiness and well-being.

 

ایک بندے کو پھانسی لگنے والی تھی۔۔! وقت کے راجا نے کہا کہ میں تمہاری جان بخش دوں گا اگر تم میرے ایک سوال کا صحیح جواب بتا دو گے تو…. سوال تھا کہ عورت آخر چاہتی کیا ہے۔۔۔؟

اس نے کہا کہ کچھ مہلت ملے تو یہ پتا کر کے بتا سکتا ہوں۔ راجا نے ایک سال کی مہلت دے دی۔۔۔

وہ بہت گھوماl

بہت سے لوگوں سے ملا. مگر کہیں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا…… آخر میں کسی نے کہا کہ دور جنگل میں ایک چڑیل رہتی ہے ، وہ ضرور بتا سکتی ہے تمہارے اس سوال کا جواب وہ اس چڑیل کے پاس پہنچا اور اپنا سوال اسے بتایا…… چڑیل نے کہا کہ میں ایک شرط پر بتاؤں گی، اگر تم مجھ سے شادی کرو گے تو….؟

اس نے سوچا کہ صحیح جواب کا پتہ نہ چلا تو جان راجا کے ہاتھوں بھی تو جان جانی ہی ہے اسی لئے شادی کے لئےرضامندی ہی بہترہے

 

شادی ہونے کے بعد چڑیل نے کہا کہ چونکہ تم نے میری بات مان لی ہےتو میں نے تمہیں خوش کرنے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ میں 12 گھنٹے تک چڑیل اور 12 گھنٹے خوبصورت پری بن کے تمہارےساتھ رہوں گی اب تم یہ بتاؤ کہ دن میں چڑیل رہوں یا رات کو؟

اب اس بیچارے نے سوچا کہ اگر یہ دن میں چڑیل ہوئی تو دن نہیں گزرے گا، اور رات میں ہوئی تو رات ڈر ڈر کر گزرےگی

آخر میں اس نے کہا.

جب تمہارا دل کرے تو پری بن جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب تمہارا دل کرے تو چڑیل بن

یہ بات سن کر چڑیل بہت خوش ہوئی اور اس نے خوش ہو کر کہا کہ چونکہ تم نے مجھے اپنی مرضی کی چھوٹ دے دی ہے، تو میں ہمیشہ بی پری بن کے رہا کروں گی!

 

 

چڑیل نے کہا کہ راجا کی طرف سے تم سے کیے گئے سوال کا  جواب بھی یہی ہے۔

عورت ہمیشہ اپنی مرضی ہی کرنا چاہتی ہے۔

اگر عورت کو اپنی مرضی کرنے دو گےتو وہ پری بن کر رہے گی اور اگر نہیں کرنے دو گے تو چڑیل بن کر رہے گی۔

اپنی باقی زندگی کا فیصلہ خود کر لیں کہ زندگی کیسے گزارنی ہے

پری کے ساتھ،

😏یا پھر چڑیل کے ساتھ

This story was sent by little cute sister Noreen Zehra 😉

Special Thanks to Noreen Zehra

For more amazing stories CLICK HERE

“`

Wait for 30 seconds…

30
```

Love with Mother | ماں سے محبت

7
A mother embracing her child, symbolizing unconditional love.

Love with Mother

قاضی چند لمحے خاموش رہا اور اس کے بعد دھیمے لہجے میں بولا’’ان کی ماں کو پیش کیاجائے”

 

Story of Love with Mother
A mother embracing her child, symbolizing unconditional love.

عدالت کے کٹہرے میں دو بھائی آمنے سامنے کھڑے تھے دونوںاپنے اپنے دلائل دے رہے تھےعدالت کافی دیر تک دونوں بھائیوں اور ان کے وکلاء کے دلائل سنتی رہی جب دلائل کا سلسلہ رکا تو عدالت میں یکدم خاموشی سی چھا گئی ٗعدالت میں موجود ہر شخص فیصلہ سننے کیلئے بے تاب تھا ٗ ایک ایسے فیصلہ کہ جو شائد ہی تاریخ میں کسی عدالت نے سنایا ہو۔

قاضی چند لمحے خاموش رہا اور اس کے بعد دھیمے لہجے میں بولا’’ان کی ماں کو پیش کیاجائے‘‘ عدالتی ہرکارے آگے بڑھے پچھلی نشست پر بیٹھی ایک ڈھانچہ نما بڑھیا کو سہارا دیا اور قاضی کے سامنے پیش کر دیا ٗ قاضی بولا’’جی مائی جی ٗ آپ کیا کہنا چاہتی ہیں‘‘؟

اماں جی نے کپکپاتے ہونٹوں سے عرض کیا ٗ ’’جناب عالی! یہ دونوں میرے بیٹے ہیں ٗ ایک اگر میری دائیں آنکھ ہے تو دوسرا میری بائیں آنکھ ۔ ایک اگر میرے دل کا دایاں خانہ ہے تو دوسرا میرے دل کا بایاں خانہ۔ عالی جاہ میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتی عدالت جو فیصلہ دے گی وہ مجھے قبول ہے ۔‘‘

قاضی کے ماتھے کی شکنیں گہری ہو گئیں ٗ چند لمحے توقف کے بعد جج نے دوبارہ دونوں بھائیوں کو بلایا اور باری باری ان سے کاروباری اور مالی پوزیشن کا جائزہ لیا ٗ جائزہ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا چھوٹا بھائی بڑے بھائی کے مقابلے میں زیادہ مالدار ہے لہٰذا فیصلہ اس کے حق میں دینا چاہئے اور قاضی نے چھوٹے بھائی کے حق میں فیصلہ سنا دیا

فیصلہ سننا تھا کہ بڑے بھائی نے آہ و بکا شروع کر دی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی ٗ عدالت میں موجود ہر شخص کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دونوں بھائیوں کے درمیان جائیداد کا معاملہ تھا یا گھر اپنے نام کروانا تھا ۔ اماں کی دولت ہتھیانا تھی یا بیویوں کی لڑائی تھی یا پھر دونوں بھائیوں نے ماں کو برا بھلا کہا تھا ۔ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں تھا ٗ تو پھر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بڑا بھائی رو کیوں رہا تھا۔

جی ہاں یہ ایک حقیقی واقعہ ہے یہ کوئی من گھڑت یا تصوراتی کہانی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی واقعہ ہے۔ یہ واقعہ سعودی عرب کے شہر قصیم کی شرعی عدالت میں پیش آیا ٗ بڑے بھائی کا نام تھا حیزان الفہیدی اور یہ بریدہ سے90کلو میٹر دور ایک گاؤں اسیاح کا رہائشی تھا اوراس واقعے کو سعودی عرب کے ایک بڑے اخبار’’الریاض‘‘ نے سرورق پر چھاپا اور کئی مساجد میں علمائے کرام نے بھی اس واقعے کا ذکر کیا ٗ

جی ہاں ہوا یوں کہ حیزان اپنی ماں کا بڑا بیٹا تھا ٗیہ سارا وقت ماں کی خدمت میں صرف کرتا تھا ٗ حیزان کی ماں ضعیف العمر اور مجبور عورت تھی ٗ ماں کی کل ملکیت پیتل کی ایک انگوٹھی تھی لیکن اس کے باوجود یہ دونوں ماں بیٹا ہنسی خوشی رہ رہے تھے کہ چھوٹے بھائی نے شہر سے آ کر بڑے بھائی سے مطالبہ کر دیا کہ وہ ماں کو ساتھ لے کر جائے گا ٗ

بڑے بھائی کو یہ مطالبہ پسند نہ آیا‘ اس نے چھوٹے کو سختی سے منع کر دیا کہ وہ اسے کبھی ایسا نہیں کرنے دے گا ‘ ابھی اس میں اتنی ہمت اور استطاعت ہے کہ وہ ماں کی دیکھ بھال اور خدمت کر سکے چھوٹا بھائی ضد پر آ گیا اس نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ ماں اس کے ساتھ رہے گی اور وہ اسے لے  ہی شہر واپس جائے گا ۔ توتکار بڑھی تو چھوٹا بھائی عدالت پہنچ گیا اور اس نے عدالت میں بڑے بھائی کے خلاف پرچہ درج کروا دیا۔

عدالت نے پہلے پہل دونوں بھائیوں کو بلایا ٗ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کا کہا لیکن دونوں اپنے موقف پر ڈٹے رہے چنانچہ عدالت کو ان کی ماں کو طلب کرنا پڑا۔ ماں بھی کوئی فیصلہ نہ کر سکی تو عدالت نے چھوٹے بھائی کی مالی پوزیشن کو بہتر دیکھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ وہ ماں کو زیادہ خوش رکھ سکے گا۔ اس فیصلے کا آنا تھا حیزان نے بھری عدالت میں دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا ٗ اس کو قاضی سے گلہ تھا ٗ بھائی سے شکوہ تھا اور نہ ہی ماں سے شکایت۔

اس کو اعتراض تھا تو صرف اپنے مقدر پر۔ وہ چیخ رہا تھا آخر میں اپنی ماں کی خدمت کرنے پر قادر کیوں نہیں؟ آخر وہ کون سی خوشی ہے جو میں ماں کو نہیں دے سکتا لیکن بھری عدالت میں کوئی ایک شخص بھی اس کے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا ٗ ہر ایک کی آنکھیں بیٹے کی ماں سے محبت پر تر تھیں ٗ ہر حلق میں محبت پھندا بن کر اٹکی تھی اور حیزان کے کلیجے سے نکلتی آہیں عرش کو ہلا رہی تھیں تو فرش والوں کو جھنجھوڑ رہی تھیں

انوکھے چور کی انوکھی کہانی

1
انوکھے چور کی انوکھی کہانی

انوکھے چور کی انوکھی کہانی

انوکھے چور کی انوکھی کہانی نیہا، اس کی گمشدہ کاپیوں اور اس کے گرد چھپے اسرار کے گرد گھومتی ہے ۔

Best Urdu Stories

انوکھے چور کی انوکھی کہانی

نیہا کے بیگ سے آج پھر ریاضی کی کاپی غائب تھی۔وہ سر پکڑے بیٹھی تھی کیونکہ کل اس کا اہم ٹیسٹ تھا،لیکن گزشتہ چند روز کی طرح آج بھی اس کے اسکول بیگ میں اس کی کاپی نہیں تھی۔دو دن پہلے اس کی اردو کی کاپی بھی اس کے بیگ میں نہیں تھی،ساری رات پریشانی کے عالم میں گزری۔صبح اُٹھ کر یہ سوچ کر بیگ دیکھا کہ رات میں شاید ٹھیک سے نہ دیکھ پائی ہوں۔

حیرت انگیز طور پر اس وقت اردو کی کاپی بیگ میں ہی موجود تھی۔اس نے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹکا اور اسکول جانے کے لئے تیار ہونے لگی۔
آج جب اس نے ٹیسٹ کی تیاری کے لئے بیگ کھولا تو اس میں ریاضی کی کاپی موجود نہ تھی۔ایک مرتبہ پھر پریشانی نے اسے آگھیرا۔ابھی وہ کاپی کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ سعد ادھر چلا آیا(

”سعد بھائی!آپ نے میری ریاضی کی کاپی کہیں دیکھی ہے؟“نیہا نے سعد کو دیکھتے ہی پوچھا۔

سعد نے انکار میں گردن ہلائی۔اس نے بہن کو پریشان دیکھ کر کہا:”ایک تو تمہاری کاپی روز کھو جاتی ہے،سنبھال کر کیوں نہیں رکھتیں؟“سعد کی بات پر نیہا نے پریشانی سے اسے دیکھا۔”نہیں بھائی!مجھے اچھی طرح یاد ہے،کاپی میں نے اپنے بیگ میں ہی رکھی تھی۔“

”اچھا پریشان مت ہو،آؤ مل کر ڈھونڈتے ہیں۔“

کچھ ہی دیر میں سعد اور نیہا نے پورا کمرہ،لاؤنج،صحن،یہاں تک کے کچن اور امی ابو تک کا کمرہ بھی چھان مارا،لیکن کاپی کہیں نہیں ملی۔ نیہا کے ذہن میں مس افروز کا چہرہ گھوم رہا تھا۔کل یقینا شامت آنے والی ہے۔کل کا سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔اب صرف مالی بابا کا کمرہ رہ گیا ہے،چلو وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔سعد نے ان کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے ،لیکن نیہا کو اپنے پیچھے نہ آتے دیکھ کر وہیں رک گیا۔
”کیا ہوا نیہا؟ایسے کیوں کھڑی ہو؟ارے تم رو کیوں رہی ہو؟“نیہا کو روتا دیکھ کر سعد نے اسے وہیں قریب رکھے صوفے پر بیٹھایا۔

”مل جائے گی کاپی نیہا!لیکن رونے سے نہیں تلاش کرنے سے۔دیکھو نیہا!کسی بھی مشکل میں رونا بہت آسان ہوتا ہے،لیکن اس مشکل سے باہر آنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے،کوشش کیے بغیر کبھی مشکل حل نہیں ہوتی۔“سعد نے اسے سمجھا کر بڑے بھائی ہونے کا فرض ادا کیا۔
سعد،نیہا سے تین سال بڑا تھا اور آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا جب کے نیہا پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔

دونوں کا شمار اسکول کے لائق ترین طلبہ میں ہوتا تھا،لیکن گزشتہ کچھ روز سے ان کے گھر میں اچانک ہی یہ نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ہر دوسرے روز نیہا کے بیگ سے کوئی نہ کوئی کاپی غائب ہو جاتی اور صبح کے وقت اس کے بیگ میں موجود ہوتی ۔شروع میں تو امی اور سعد نے اس کی لاپروائی کہہ کر توجہ نہ دی کہ وہ خود ہی ٹھیک سے نہیں دیکھتی ،لیکن روز بروز کی شکایت سے وہ بھی پریشان ہونے لگے۔

نیہا کی پڑھائی کا جو نقصان ہو رہا تھا وہ الگ۔
نیہا کو چپ کرانے کے دوران وہ یہ بھول ہی گیاکہ اسے مالی بابا کے کمرے میں کاپی ڈھونڈنی تھی۔مالی بابا جن کا نام سلیم تھا وہ ان کے ہی گھر کے پچھلے حصے میں اپنی بیوی اور دو بچوں علی اور حسن کے ساتھ رہتے تھے۔جہاں ایک کمرہ،کچن اور غسل خانہ بنا ہوا تھا۔ان کی بیوی سلمیٰ گھر کے کاموں میں امی کا ہاتھ بٹا دیا کرتی تھیں اور علی اور حسن دن بھر شرارتیں کرتے تھے۔

کاپی ڈھونڈنے سے قبل سعد نے سوچا کے وہ نیہا کو کل کے ٹیسٹ کی تیاری کرادے۔اس کے بعد وہ کاپی ڈھونڈ لے گا۔وہ نیہا کے ساتھ اسٹڈی روم میں آگیا۔کتاب کی مدد سے اس نے نیہا کے ٹیسٹ کی تیاری کرائی،مشق کرانے کے بعد پہاڑے یاد کرنے کا کہہ کر وہ امی کے پاس چلا آیا۔
”امی روز روز نیہا کی کاپی کا اس طرح غائب ہو جانا اور پھر مل جانا کچھ عجیب نہیں ہے؟“اس نے امی سے کہا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گئیں۔

”میں سوچ رہا تھا کہ کہیں علی اور حسن شرارت میں کہیں چھپا تو نہیں دیتے؟ویسے بھی نیہا سارا دن ان کے ساتھ لڑتی رہتی ہے تو وہ شرارت کے طور پر اس کی کاپی چھپا دیتے ہوں؟“اس نے امی کے سامنے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
”تم جاؤ اور جاکر ان بچوں سے پوچھ لو،مگر ہاں پیار سے پوچھنا۔“انھوں نے سعد کو سمجھاتے ہوئے کہا۔سعد سر ہلاتا ہوا گھر کے پچھلے حصے کی جانب چلا آیا۔

”تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟“حسن اور علی کمرے کے باہر کھڑکی کے نیچے کسی چیز پر جھکے ہوئے تھے۔سعد کو سامنے دیکھ کر ہڑ بڑا کر سیدھے ہوئے۔
”کچھ نہیں سعد بھائی!ہم باتیں کر رہے تھے۔“یہ حسن تھا جو علی کے سامنے آکر کھڑا ہو چکا تھا۔سعد نے دیکھا علی کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔
”مجھے سچ سچ بتا دو ابھی موقع دے رہا ہوں،ورنہ پھر ابو کو ہی بتانا،سعد نے کہہ کر کندھے اُچکائے۔

دونوں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔
”اور یہ تم کیا چھپا رہے ہو؟“،علی جو کھڑکی میں ہاتھ ڈال کر اندر کچھ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا،سعد کے کہنے پر رک گیا۔”دکھاؤ مجھے کیا ہے تمہارے ہاتھ میں؟“، سعد نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔
”دیکھو اگر تم مجھے نہیں بتاؤ گے تو میں ابو کو بتا دوں گا۔پھر سوچ لینا بہت ڈانٹ پڑے گی۔“سعد کے کہنے پر علی نے پیچھے کیا ہوا ہاتھ آگے کر دیا جس میں نیہا کی ریاضی کی کاپی تھی۔

”یعنی میرا شک صحیح نکلا،یہ تم دونوں کی شرارت تھی۔“دونوں سر جھکائے سعد کے سامنے کھڑے تھے۔اس دوران بچوں کی ماں سلمیٰ وہاں آگئی۔
”کیا ہوا سعد بیٹے!ان دونوں نے پھر کوئی شرارت کی ہے؟“سلمیٰ نے سعد کو دیکھ کر پوچھا۔ان کے پوچھنے پر سعد نے ساری بات بتا دی۔وہ غصے سے دونوں کو مارنے کے لئے آگے بڑھیں لیکن اسی وقت سعد کی امی اور نیہا بھی وہاں آگئے۔

اپنی کاپی علی کے ہاتھ میں دیکھ کر نیہا تو آپے سے باہر ہو گئی۔اسے ویسے بھی دونوں بھائیوں سے کچھ زیادہ لگاؤ نہیں تھا۔
سعد کی امی نے کاپی لے کر دیکھی تو کاپی بالکل صحیح حالت میں تھی۔انھوں نے اسے خراب نہیں کیا تھا،لیکن پھر وہ اس طرح نیہا کے بیگ سے کاپی نکالتے کیوں ہیں؟سب کے ذہنوں میں یہی سوال تھا اور اب تو سعد،علی اور حسن کے ابا بھی وہاں موجود تھے۔

سعد کی امی کے پوچھنے پر علی نے بتایا:”ہم بھی سعد بھائی اور نیہا باجی کی طرح پڑھنا چاہتے تھے۔ایک دن ہم نے نیہا باجی سے کہا کہ وہ جو بھی اسکول میں پڑھ کر آتی ہیں، ہمیں بھی پڑھا دیا کریں تو انھوں نے کہا تم لوگ پڑھ لکھ کر کیا کرو گے؟تمہارا جو کام ہے وہی کیا کرو،یہ کہہ کر وہ ہمارا مذاق اُڑانے لگیں۔
علی کی بات پر سب نے نیہا کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔

”پھر میں نے اور حسن نے سوچا کے ہم دونوں خود ہی پڑھیں گے،پھر ہم روز نیہا باجی کے بستے سے ایک کاپی لاتے اور اس میں جو بھی لکھا ہوتا تھا سلیٹ پر اس کی نقل کرتے۔یوں ہم روز کچھ نہ کچھ پڑھنے لگے لیکن ہم ان کی کاپی خراب نہیں کرتے۔“علی کی بات پر سعد کے ابو کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔سلمیٰ اور سلیم شرمندگی سے سر جھکائے کھڑے تھے۔سعد کی امی نے آگے بڑھ کر علی اور حسن کو گلے سے لگایا تو سلمیٰ اور سلیم حیرت سے انھیں دیکھنے لگے۔

سعد کے ابو نے نیہا کو دیکھا جو اب تک سر جھکائے کھڑی تھی۔”نیہا بیٹا!ادھر آئیے۔“نیہا ان کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔
”بیٹا!ہم نے آپ کو کب یہ سکھایا کہ ہم مالک ہیں اور یہ ملازم؟ہم نے تو آپ کو سکھایا ہے کہ اللہ کے سب بندے برابر ہوتے ہیں،مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ آپ نے علی اور حسن سے اس انداز میں بات کی۔اگر آپ پڑھ سکتی ہیں،اسکول جاتی ہیں تو وہ کیوں نہیں؟مجھے افسوس ہے کہ یہ خیال مجھے خود ہی کیوں نہ آیا۔

“ان کے لہجے میں خفگی تھی۔
”آئی ایم سوری بابا!“نیہا نے ان کی جانب دیکھ کر کہا۔
”سوری آپ ان دونوں سے کہیے اور آپ کی سزا یہ ہے کہ آج سے آپ ان دونوں کو پڑھائیں گی۔“اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”اور غلط کام آپ دونوں نے بھی کیا ہے،کسی سے چھپ کر اس کی چیز لینا یا استعمال کرنا چوری کہلاتا ہے اور چوری کرنا بہت بُری بات ہے۔آپ بھی نیہا سے سوری کہیے اور آپ دونوں کی سزا یہ ہے کہ کل سے آپ دونوں بھی اسکول جائیں گے۔“ان کی بات پر علی اور حسن نے حیرت سے انھیں دیکھا اور خوشی کے مارے ایک دوسرے سے لپٹ گئے

 

Summary of the story “Unique Thief’s Unique Story”

انوکھے چور کی انوکھی کہانی

 

 

This is a story in Urdu about a mysterious case of missing copies (notebooks) belonging to a girl named Neha. Every other day, a copy would go missing from her bag, only to reappear the next morning. Her brother Saad, who is three years older, tries to help her find the missing copy.

They search the entire house, including the room of their neighbours, Saeed and his family, who live in the back portion of the house.Saad suspects that Saeed’s sons, Ali and Hasan, might be playing a prank on Neha. When confronted, Ali reveals that they wanted to learn like Saad and Neha, but Neha hd discouraged them, saying they wouldn’t be able to do anything with their education. So, they started taking Neha’s copies to learn from them.

Saad’s father scolds Neha for her behaviour towards Ali and Hasan and orders her to teach them from now on. He also scolds Ali and Hasan for taking Neha’s copies without permission and orders them to go to school from the next day.

For more amazing moral stories Click Here

 

سترنگی جھیل کے ہاتھی اور چوہے

0
سترنگی جھیل کے ہاتھی اور چوہے

سترنگی جھیل کے ہاتھی اور چوہے

…..ایک زبردست کہانی ملاحظہ کیجئے سترنگی جھیل کے ہاتھی اور چوہے

 

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ آبادی سے دور ایک پرانا ویران گاؤں تھا۔اس میں گھر، گلیاں اور دکانیں سب خالی اور ویران تھیں۔کھڑکیاں اور سیڑھیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔یہ جگہ چوہوں کے بھاگنے کودنے اور غل مچانے کے لئے بڑی عمدہ تھی۔اس گاؤں میں چوہے صدیوں سے رہ رہے تھے۔انہیں اس گاؤں میں کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

چوہوں کے لئے یہ ایک بہترین دور تھا۔انہوں نے ان پرانے گھروں اور عمارتوں میں سرنگیں بنائیں۔بھول بھلیاں بنائیں۔ان کے تو یہاں مزے تھے۔وہ یہاں کھل کر موج مستی، دعوتیں اور پارٹیاں کرتے تھے۔اور یوں وقت گزرتا گیا۔ایک دن ہاتھیوں کا ایک بہت بڑا غول، جن کی تعداد درجنوں میں تھی، گاؤں سے گزرتے ہوئے مغرب کی جانب ایک بڑی جھیل کی طرف بڑھ رہا تھا۔

تمام ہاتھی چلتے چلتے سوچ رہے تھے کہ اس جھیل کے ٹھنڈے پانی میں تیرنے میں کتنا مزہ آئے گا۔وہ نہیں جانتے تھے کہ جب وہ گاؤں سے گزر رہے تھے تو ان کے قدم چوہوں کی بنائی ہوئی سرنگوں اور بھول بھلیوں کو روند گئے تھے۔ہاتھی بڑی گڑ بڑ کر گئے تھے۔چوہوں نے فوراً میٹنگ بلائی۔
اگر ان کا غول واپس دوبارہ ادھر سے گزرا تو ہم برباد ہو جائیں گے! ایک چوہا پکارا۔

”ہم انہیں اب موقع ہی نہیں دیں گے“۔ایک اور پکارا۔اب کچھ دلیر چوہوں کے ایک گروپ نے ان ہاتھیوں کے قدموں کے نشانات کا جھیل تک پیچھا کیا۔وہاں انہیں ہاتھیوں کا بادشاہ ملا۔بادشاہ کے سامنے جھکتے ہوئے، ایک چوہا، باقی سب کی نمائندگی کرتے ہوئے بولا۔”بادشاہ سلامت! یہاں سے ہماری چوہوں کی آبادی زیادہ دور نہیں ہے۔یہ اسی پرانے ویران گاؤں میں ہے جس سے آپ گزر کر آئے ہیں۔

آپ کو یاد ہو گا؟“
مجھے یاد ہے۔ہاتھی بادشاہ نے کہا۔ہم ہاتھی ہیں۔ہمیں نہیں معلوم ہوا کہ وہاں چوہوں کی آبادی موجود ہے۔واہ! آپ کو نہیں معلوم تھا؟ اس چوہے نے طنز سے کہا۔آپ کے ریوڑ نے ان بہت سے گھروں کو برباد کر دیا ہے جہاں ہم سینکڑوں سالوں سے رہ رہے ہیں۔اگر آپ اسی انداز سے واپس لوٹے تو یقینا ہمارا تو خاتمہ ہی ہو جائے گا۔ہماری ایک عرض سنیں! کیا آپ واپس جانے کے لئے کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کر سکتے؟ کیا معلوم کسی دن ہم چوہے بھی آپ کی کچھ مدد کر سکیں۔

ہاتھی بادشاہ نے دل ہی دل میں مسکرا کر سوچا۔”لو سنو! یہ چھوٹے چوہے کبھی ہاتھی کی مدد کیسے کر سکتے ہیں!“
لیکن اسے افسوس ہوا کہ اس کے ریوڑ نے چوہوں کے گاؤں کو بے دھیانی میں کچل ڈالا ہے۔اس نے کہا ”ٹھیک ہے۔تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔میں ریوڑ کو دوسرے راستے سے گھر لے جاؤں گا۔اسی دوران قریبی بادشاہ نے اپنے شکاریوں کو حکم دیا کہ وہ جتنے ہاتھیوں کو پکڑ سکتے ہیں پکڑ لیں۔

یہ جان کر کہ ہاتھی دور دور سے اس بڑی جھیل میں تیرنے کے لئے آتے ہیں، بادشاہ کے شکاریوں نے وہاں پانی میں جال لگا دیے۔جیسے ہی ہاتھی بادشاہ اور اس کے ریوڑ نے اس جھیل میں چھلانگ لگائی، وہ سارے اس جال میں پھنس گئے۔

دو دن بعد شکاریوں نے ہاتھی بادشاہ اور اس کے ریوڑ کو بڑی بڑی رسیوں سے کھینچ کر جھیل سے باہر نکالا اور انہیں جنگل کے مضبوط درختوں سے باندھ دیا۔

جب شکاری چلے گئے تو ہاتھی بادشاہ سوچنے لگا۔کیا کیا جائے؟ وہ سب درختوں سے بندھے ہوئے تھے سوائے ایک ہاتھی کے۔وہ آزاد تھا کیونکہ اس نے جھیل میں چھلانگ نہیں لگائی تھی۔
ہاتھی بادشاہ نے اسے پکارا۔اس نے اسے کہا کہ وہ فوراً ویران گاؤں جائے اور چوہوں کو یہاں لائے۔جب چوہوں کو پتہ چلا کہ ہاتھی بادشاہ اور اس کا ریوڑ اس مصیبت میں ہے تو وہ جھیل کی طرف بھاگے۔

بادشاہ اور اس کے ریوڑ کو بندھے ہوئے دیکھ کر وہ تیزی سے رسیوں کے پاس پہنچے اور اپنے تیز دانتوں سے انہیں کترنے لگے۔وہ رسیاں کترتے جا رہے تھے اور ہاتھی آزاد ہوتے جا رہے تھے۔انہوں نے جلد ہی موٹی رسیاں کتر دیں اور تمام ہاتھی رسیوں سے آزاد ہو گئے۔تمہارا بہت بہت شکریہ! تم نے ہم سب کو آزاد کیا۔بادشاہ ہاتھی نے کہا۔ہاتھیوں کے ریوڑ نے گھر واپسی کا نیا راستہ اختیار کیا اور چوہوں کی برادری آنے والے کئی سالوں تک زندہ رہی۔

 

Best Urdu stories….

For more amazing and moral kids Urdu stories Click Here

50 Best Urdu Sad Quotes

8

Tears in Words: Heart-wrenching Urdu Sad Quotes

Life can be unpredictable and sometimes it deals us a hand that’s hard to bear. Heartbreak, loss, and sorrow can leave us feeling lost and alone. But in those moments of darkness, words have the power to comfort and heal.

Urdu Sad quotes are more than just a collection of words; these are healing words, and these are the reflection of our shared human experience. They offer a glimpse into the hearts of those who have walked the same path as us and remind us that we’re not alone in our struggles.

These quotes have a way of putting into words the emotions we can’t quite express. These quotes capture the essence of sorrow, longing, and melancholy, offering a cathartic expression of the emotions that we often find hard to put into words. They validate our feelings and let us know that it’s okay to feel sad, to grieve, and to heal. They remind us that every storm will pass and that better days are ahead.

Whether you’re going through a tough time, or simply need a reminder that you’re not alone, sad quotes have the power to touch your heart and soul. They offer a message of hope and resilience and remind us that even in the darkest moments, there is always light to be found.

Find solace in the words of others who have walked the same path. Share your favourite quotes with others who understand, and find comfort in the knowledge that you’re not alone in your feelings.

Let the quotes on Quotable Waves be your companion in times of sorrow, and a reminder that even in the darkest moments, there is always hope for a brighter tomorrow.

For more amazing quotes Click Here

50 Best Urdu Sad Quotes

کچھ نگاہیں منتظر ہیں
اور کسی کو فرصت ہی نہیں

 

کُھلی کتاب کے صفحے اُلٹتے رہتے ہیں
ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں

 

مٹی اوڑھ کے سو جائیں گے
ہم بھی ماضی ہو جائیں گے

 

اور پھر مرنے کے بعد
ہم بھی اچّھے ہو جائیں گے

 

اور ہم زلیل بھی اپنے انتخاب سے ہی ہوتے ہیں

 

ہم امیر ترین، ذہین ترین اور خوبصورت ترین
ہو کر بھی مر جائیں گے

 

خوشی جلدی میں تھی رُکی نہیں
غم فُرصت میں تھے ٹھہر گئے

 

بس یہی سوچ کے شکوہ نہ کیا میں نے
اپنی جگہ ہر شخص صحیح ہوا کرتا ہے

 

کبھی کبھی کسی سے اتنی شکایت ہوتی ہے
کہ شکایت کرنے کو بھی دل نہیں کرتا

 

،حسرتیں، اٌمیدیں، وفائیں، سکون
انّ لِلّٰلہِ وَاِنّ اِلَی٘ہِ رَاجِعُوْن

 

جب دل دُکھتے ہیں تو
زبانیں خود ہی بند ہو جاتی ہیں

 

یوں ہم سے اتنی بے رُخی اچھی نہیں صاحب
کہیں دل عادی نہ ہو جائے تیرے بغیر جینے کا

 

نیند والے سمجھ نہ پائیں گے
رات بھر جاگنے والوں کا دٌکھ

 

لے لو واپس یہ آنسو یہ تڑپ اور یہ یادیں
نہیں تم میرے تو پھر یہ سزائیں کیسی

 

رقص دیکھا ہے کبھی شاخ سے گرتے پتّوں کا
یوں جھوم کے گرتے ہیں تیری یاد میں آنسو

 

بے درد زمانے کا بہانا سا بنا کر ہم
ٹوٹ کے روتے ہیں تیری یاد میں اکثر

 

آپ سے ناراض ہو کر کہاں جائیں گے
روئیں گے، تڑپیں گے اور پھر لوٹ آئیں گے

 

بس میرا خدا ہی جانتا ہے
میرےصبرکے پیپھےکا دکھ

 

محبت کرنے کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں

 

کون جیتا ہے زندگی اپنی
ہر کسی پہ کوئی مسلط ہے

 

دستک اور آواز تو کانوں کے لئے ہے
جو روح کو سنائی دے اسے خاموشی کہتے ہیں

 

گہری باتیں سمجھنے کے لئے
گہری چوٹیں کھانی پڑتی ہیں

 

تو کس وجہ سے خفا ہے مجھے یاد نہیں
تجھ سے کیے وعدے نبھا رہاہوں میں

 

تجھے ان دوغلے چہروں میں یاد آئے گا
ایک شخص ملا تھا بہت کھرا تجھ سے

 

ہر چیز دستیاب تھی دنیا جہاں کی
لیکن اک تیری کمی کا ازالہ نہ ہو سکا

 

جینے والوں پہ بہت بھاری ہے
جانے والوں کی مختصر زندگی

 

کتنی بے کیف سی رہ جاتی ہےدل کی بستی
کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

 

دھیان کوئی نہیں دیتا دھڑکتے دل پر
اعلان تین بار بڑے غور سے سُنا جاتا ہے

 

دور حاضر میں میسر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر چیز ہے لیکن
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں وہ بچھڑے ہوئے لوگ

 

بہت خیال رکھتے ہیں وہ اپنے دل کا
اِدھر نہیں لگتا تو اُدھر لگا لیتے ہیں

کوئی تھک چکا ہے سفر سے
کوئی ہار چکا ہے خود سے

 

یقین نہ ائے تو ایک بار پوچھ کر دیکھ لو
جو ہنس رہا ہے، وہ زخم سے چُور نکلے گا

 

خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اِس شہر میں سب کچھ ہے بس اک تیری کمی ہے

 

روٹھیں گے تم سے، اس طرح کہ پھر
فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھ سکو گے

 

وقت لگے گا زخم بھرنے میں آخری وار بہت گہرا تھا ۔۔۔

 

…….کچھ آنسو
صرف روح پر گرتے ہیں

 

یہ انسان کی فطرت ہے کہ
مکمّل مل جانے والی چیز سے دل بھر جاتا ہے

 

میں اپنی تنہائی میں تنہا بہتر ہوں
مجھے ضرورت نہیں دو پل کے سہاروں کی

 

ہر شخص نہیں ہوتا اندر سے باہر جیسا

 

ہر چیز قیمتی ہوتی ہے
ملنے سے پہلے اور کھو جانے کے بعد

 

بے درد زمانے کا بہانا سا بنا کر ہم
ٹوٹ کے روتے ہیں تیری یاد میں اکثر

 

زندگی تیرے فیصلے بڑے سخت ٹھہرے

 

کچھ مرسا گیا ہے اندر سے
اب میرا دل حسرتیں نہیں کرتا

 

 

وقت تو گزر ہی جاتا ہے لیکن
کسی کو دی ہوئی تلخیوں کے نقش باقی رہ جاتے ہیں

 

رشتوں کی تھکاوٹ میں
پہلی نشانی خاموشی ہوتی ہے

وقت کا تقاضا ہے کہ خود کو خود تک
ہی محدود رکھو

 

جب جواب ہی مختصر ملنے لگ جائیں
پھر باتیں بھی ختم ہو جایا کرتی ہیں

 

جب جواب ہی مختصر ملنے لگ جائیں
پھر باتیں بھی ختم ہو جایا کرتی ہیں

 

“`

Wait for 30 seconds…

30
```

60 Inspiring Quotes About Nature

2

 

Mother Nature is the ultimate inspiration. When you’re feeling sluggish, simply walking outside and getting fresh air can do wonders for your mood and outlook. Often, nature’s beauty can take your breath (and words) away.

In those moments of awe, we like to turn to some of our favourite nature quotes that sum up how we’re feeling. These inspirational nature quotes will make you want to go on a hike, sit by the lake, or just step outside to your yard. Plus, short-natured quotes with simple and concise language make great captions for Instagram.

When words escape you, turn to some of the best literary minds for these beautiful nature quotes. These are the piece of minds, Now get outside and get inspired!

 

 

“Nature is the art of God” –Dante Alighieri

 

“In every walk with nature one receives far more than he seeks.” –John Muir

 

“What is the good of your stars and trees, your sunrise and the wind, if they do not enter into our daily lives?” –E.M. Forster

 

“In the spring, at the end of the day, you should smell like dirt.” –Margaret Atwood

 

“Some old-fashioned things like fresh air and sunshine are hard to beat.” –Laura Ingalls Wilder

 

 

“My wish is to stay always like this, living quietly in a corner of nature.” –Claude Monet

“There is no Wi-Fi in the forest, but I promise you will find a better connection.”

–Ralph Smart

“For a time, I rest in the grace of the world, and am free.” –Wendell Berry

 

“Keep your face to the sunshine and you cannot see a shadow.” –Helen Keller

 

“Fresh air is as good for the mind as for the body. Nature always seems trying to talk to us as if she had some great secret to tell. And so she has.” –John Lubbock

 

“Nature is pleased with simplicity.” –Sir Isaac Newton

 

Best Nature Quotes ever, you can easily find them here………!!!

  1. “In every walk with nature, one receives far more than he seeks.” – John Muir
  2. “Nature is not a place to visit. It is home.” – Gary Snyder
  3. “The clearest way into the Universe is through a forest wilderness.” – John Muir
  4. “Nature is painting for us, day after day, pictures of infinite beauty.” – John Ruskin
  5. “The earth has music for those who listen.” – William Shakespeare
  6. “To sit in the shade on a fine day and look upon the verdant green hills is the most perfect refreshment.” – Elizabeth von Arnim
  7. “Nature is not just a nice thing to have around; it’s a necessity.” – Richard Louv
  8. “The world is a book, and those who do not travel read only one page.” – Saint Augustine
  9. “In nature, nothing is perfect and yet everything is perfect.” – Alice Walker
  10.  “Nature always wears the colours of the spirit.” – Ralph Waldo Emerson
  11. “The earth has its own rhythm, and we must respect it.” – Dalai Lama
  12. “Nature is the art of God.” – Ralph Waldo Emerson
  13. “The mountains are calling, and I must go.” – John Muir
  14. “The sea, once it casts its spell, holds one in its net of wonder forever.” – Jacques Cousteau
  15. “Nature is not a destination, it’s a journey.” – Unknown
  16. “The world is full of magic things, patiently waiting for our senses to grow sharper.” – W.B. Yeats
  17. “To walk in nature is to witness a thousand miracles.” – Mary Davis
  18. “Nature is painting for us, day after day, pictures of infinite beauty.” – John Ruskin
  19. “The earth is the cradle of humanity, but one cannot live in a cradle forever.” – Konstantin Tsiolkovsky
  20. “Nature is the ultimate source of inspiration.” – Unknown
  21. “The forest is the womb of nature.” – Unknown
  22. “Nature is the greatest architect of all.” – Unknown
  23. “The ocean stirs the soul.” – Unknown
  24. “Nature is the art of the infinite.” – Unknown
  25. “The earth is a treasure trove of wonders.” – Unknown
  26. “In nature, every moment is a poem.” – Unknown
  27. “The mountains are the bones of the earth.” – Unknown
  28. “Nature is the mirror of the soul.” – Unknown
  29. “The world is a garden, and we are the gardeners.” – Unknown
  30. “Nature is the ultimate teacher.” – Unknown
  31. “The earth is a living being, and we are its children.” – Unknown
  32. “Nature is the music of the spheres.” – Unknown
  33. “The forest is the heartbeat of nature.” – Unknown
  34. “Nature is the ultimate artist.” – Unknown
  35. “The ocean is the soul of the earth.” – Unknown
  36. “Nature is the greatest gift of all.” – Unknown
  37. “The earth is a masterpiece, and we are the apprentices.” – Unknown
  38.  “Nature is the source of all life.” – Unknown
  39.  “The mountains are the guardians of the earth.” – Unknown
  40.  “Nature is the ultimate source of wisdom.” – Unknown
  41. The earth is a treasure chest of wonders, waiting to be discovered.
  42. Nature’s beauty is a balm for the soul, soothing our worries and troubles.
  43. The forest is a cathedral of trees, a sacred sanctuary for the spirit.
  44. The mountains stand tall, sentinels of the natural world, guarding its secrets.
  45. The ocean’s waves are a symphony of sound, a melody that echoes the heartbeat of the earth.
  46. In nature’s embrace, we find solace, comfort, and peace.
  47. The sun shines bright, a beacon of hope, illuminating our path through life.
  48. The stars twinkle like diamonds in the night sky, a celestial tapestry of wonder.
  49. The wind whispers secrets in our ear, carrying the whispers of the ancient ones.
  50. The trees stand tall, wise ones, sharing their wisdom with those who listen.
  51. Nature’s beauty is a reflection of our own inner beauty, a reminder of our true potential.
  52. The earth is our home, our sanctuary, our haven.
  53. In nature’s arms, we find our true selves, our connection to the universe.
  54. The flowers bloom, a colorful tapestry of life, a celebration of beauty and wonder.
  55. The rivers flow, a symbol of life’s journey, ever-changing, yet constant.
  56. The mountains rise, a testament to the power of nature, a reminder of our own strength.
  57. The sky stretches out, a canvas of endless possibility, a reminder of our own potential.
  58. Nature’s beauty is a gift, a treasure to behold, a reminder of the magic that surrounds us.
  59. The earth is alive, a vibrant, pulsing being, full of wonder and surprise.
  60. Nature’s wisdom is ancient, a knowledge that echoes through the ages, a reminder of our own inner wisdom.

Hope you will enjoy the best-ever Inspiring Nature quotes…..!!!

 

“`
Wait for 30 seconds, then get verification code.
```